کریڈٹ کارڈ کا فقہی جائزہ
خریداری کے وقت کریڈٹ
کارڈکی دوحالتیں ہوتی ہیں: ۱-عربی میں
اس حالت کو”بطاقة مغطاة“کہتے ہیں،مطلب یہ کہ اس سے مرادوہ کارڈہے جس
کے اجراء کے وقت بینک صارف پرلازم کرتاہے کہ وہ اپنے اکاؤنٹ میں
کارڈاستعمال کرنے کی صورت میں مہیاکی گئی قرض کی
آخری مقدارکے برابررقم جمع کروا دے،اوروہ رقم جب تک کارڈ استعمال ہوتارہے
گااس کی اکاؤنٹ میں باقی رہے گی، جیسے ڈیبٹ
کارڈ(Debit Card)۔ ۲-دوسری
حالت کوعربی میں”بطاقة غیرمغطاة “کہتے ہیں،یعنی
مرادوہ کارڈہے جس کے اجراء کے لیے بینک صارف پررقم جمع کروانے کی
کوئی شرط نہیں رکھتاکہ وہ اپنے اکاؤنٹ میں کارڈکے ذریعے
فراہم کی گئی قرض کی مقدارکے برابررقم رکھے۔(۴۰)جیسے
چارج اورکریڈٹ کارڈ۔پہلی حالت(ڈیبٹ کارڈ،تکییف):وہ
کارڈجن کے اجراء کے لیے بینک اکاؤنٹ میں رقم کا ہونا ضروری
ہے،جیسے ڈیبٹ کارڈ(Debit Card)معاصرعلماء کی
بڑی تعدادنے اس کی فقہی تکییف بطور”حوالہ“کے کی
ہے،چناں چہ پروفیسرصدیق محمدامین الضریر،(۴۱)ڈاکٹرمحمد
قری بن عبید،(۴۲) مولانارحمت اللہ ندوی،(۴۳)
ڈاکٹروہبہ زحیلی،(۴۴)اورفقہ اکیڈمی انڈیا
کے مفتی عبداللطیف پالنپوری، اورایک قول میں مولانا
ابرارخان ندوی، مولاناخالدسیف اللہ رحمانی، مولانامحمداعظم ندوی،
مولانازبیراحمدقاسمی، مولانا محمد ارشد فاروقی ، (۴۵)
وغیرہ نے ڈیبٹ کارڈکی فقہی تکییف
”عقدحوالہ“سے کی ہے۔حضرت مولانامفتی محمدتقی عثمانی
صاحب زیدمجدہ نے بھی اسے ”حوالہ“ کے ذیل میں ذکر فرمایا
ہے ۔ (۴۶)مجمع الفقہ الإسلامی نے اپنے پندرہویں سمینار(جوکہ
مسقط میں منعقد ہو ا تھا)میں یہ قراردادمنظورکی ہے کہ ڈیبٹ
کارڈجاری کرنااس کے ذریعہ خرید و فروخت وغیرہ جائزہے،اس
شرط پرکہ ادائیگی میں تاخیرکی وجہ سے جرمانہ(سودی
فائدہ)نہ دینا پڑتا ہو۔(۴۷)ڈاکٹروہبة الزحیلی
کہتے ہیں کہ ڈیبٹ کارڈجارڈ کرنے کے جوازکی دوشرطیں ہیں:
۱-صاحب ِکارڈاپنے بیلنس ،یاڈپازٹ سے رقم نکالے گا۔۲-اس
کارڈکے ذریعہ معاملہ کرنے پرکوئی اضافی سودمرتب نہیں ہوگا۔
(۴۸)فقہ اکیڈمی انڈیاکے مولانامحمدشوکت ثناء قاسمی
صاحب ڈیبٹ کارڈسے استفادہ کو جائزقراردیتے ہوئے لکھتے ہیں:”البتہ
خریدوفروخت کی صورت میں اگر قیمت کی ادائیگی
کسی طرح غرر،یابائع مشتری میں سے کسی
کوضررہو،توپھراس کے ذریعہ خرید و فروخت قابل غورہوگی۔(۴۹)حاصل
یہ ہواکہ معاصرعلماء کی اکثریت نے بطاقة مغطاة یعنی
ڈیبٹ کارڈ کوعقدحوالہ قراردیاہے،کارڈہولڈرکومحیل،کارڈ جارڈ
کنندہ جوکہ کارڈ ہولڈر کا مدیون بنتا ہے ، اسے محال علیہ
اورتاجرکومحال سے تعبیرکیا،اس سے استفادہ کوجائز قرار د یا،البتہ
یہ شرط رکھی گئی ہے کہ کارڈہولڈراپنے ہی بیلنس سے
رقم نکالے،اوراس پرادائیگی میں تاخیرکی وجہ سے سودی
فائدہ مرتب نہ ہوتاہو،اسی طرح قیمت ادائیگی میں غرر
اور بائع ومشتری کسی کاضرربھی نہ ہو،وگرنہ ان خرابیوں کی
وجہ سے ڈیبٹ کارڈسے استفادہ اوراس کااجراء ان علماء کے نزدیک
ناجائزقرارپائے گا۔
دوسری حالت(کریڈٹ کارڈ،چارج کارڈ)
بطاقة غیرمغطاة یعنی کریڈٹ
وچارج کارڈ کو خریدوفروخت کے لیے استعمال کرتے وقت، اس کی تکییف
فقہی میں معاصرعلماء کااختلاف ہے، اس بارے میں متعدد آراء ہیں،ذیل
میں ان کاخلاصہ ذکرکیاجائے گا۔پہلی رائے اس کی تکییف
فقہی میں یہ ہے کہ یہ ” قرض“ ہے ،ڈاکٹر بکر بن عبداللہ
ابوزید،(۵۰)ڈاکٹرعبدالوہاب ابوسلیمان،(۵۱)
ڈاکٹرمحمدبالوالی،(۵۲) اورفقہ اکیڈمی انڈیاکے
بہت سے ارکان نے اس کی تکییف ”قرض“سے کی ہے۔
پہلی تکییف”قرض“پرہونے والے اعتراضات
بطاقة غیرمغظاة یعنی کریڈٹ
وچارج کارڈکی فقہی تکییف ”قرض“ پر فقہی اعتبارسے
درج ذیل اعتراضات واردہوتے ہیں:۱-مقرض ومستقرض کے درمیان
دوطرفہ تعلق ہوتاہے،یعنی اس میں عاقدین دوہوتے ہیں،قرض
دینے والااورقرض لینے والا،جب کہ کارڈکی صورت میں عقدتین
اطرف میں پایاجاتاہے،دائن یعنی تاجر،مدیون یعنی
کارڈہولڈراورقرض اداکرنے والا بینک ، کارڈہولڈرکی طرف سے ادائیگی
کرنے والاکارڈجاری کنندہ بینک دین کی ادائیگی
میں حامل کارڈکانائب سمجھاجائے گا؛اس لیے کہ بینک کو یہاں
پر متبرع مانناممکن نہیں،لہٰذابینک یا تو حامل کاکفیل
ہوگا،یاوکیل،یامحال علیہ“۔(۵۳)
۲-بسااوقات کارڈہولڈرکارڈکواستعمال
میں نہیں لاتا،جب کہ قرض میں یہ ضروری ہے کہ مال کی
ادائیگی اوراس کابدل واپس کیاجائے جیسے کہ قرض کی
تعریف فقہی میں مذکورہے:دفع مال إرفاقاًلمن ینتفع بہ ویردبدلہ
لہ“․(۵۴)”کسی کومال دینابطوراحسان کہ وہ اس سے نفع
اٹھائے اوراس کابدل اسے واپس لوٹائے۔“یاقرض ایک عقدمخصوص کوکہتے
ہیں کہ دوسرے کومال مثل دیاجائے تاکہ وہ (بعدمیں)اس کامثل
لوٹائے۔(۵۵)قرض میں قبضہ کاپایاجاناضروری
ہے،اس لیے کہ عقدقرض میں تصرف قبضہ موقوف ہوتاہے،اورملکیت بھی
اسی پرموقوف ہوتی ہے۔(۵۶) جب کہ ”بطاقة غیر
مغطاة“ میں کسی نوع کابھی قبضہ نہیں پایاجاتاہے؛اس
لیے کہ کارڈہولڈرکاکوئی بیلنس نہیں ہوتا ہے،اسی کے
بارے میں ڈاکٹرعلی السالوس کہتے ہیں:”ولکن لوفرضناأن البطاقة
ہذہ لیس لہارصید،فحامل البطاقة سوف یدفع فیمابعد، إذن
فالدفع بالطاقة لایعتبرقبضاً“․(۵۷) یعنی:اگرہم
یہ فرض کریں کہ اس کارڈکاکوئی بیلنس نہیں، کارڈ
ہولڈ ر بعد میں ادائیگی کردے گا،توکارڈکے ذریعے ادائیگی
کوقبضہ نہیں سمجھاجائے گا۔“
۳ -قرض کی تعریف اورحقیقت
یہ ہے کہ وہ بطوراحسان کے ہوتا ہے،جب کہ بینک عمومی طورسے کوئی
بھی چیزبغیراجازت کے نہیں دیتے،لہٰذاقرض سے
زائدجوبھی اجرت وصول کی جائے گی وہ سودشمارکی جائے گی۔(۵۸)
۴-کارڈکی تکییف
بطورقرض کے کرنا،یہ اس کے تمام حالات ومراحل کااحاطہ نہیں کرتا، اس کی
وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹرمحمدعبدالحلیم لکھتے ہیں:”اس بات کی طرف
اشارہ کرناضروری ہے کہ بینک کارڈہولڈرکی طرف سے معین رقم
کی تاجر کو ادائیگی کے بعداس کاحق رکھتاہے کہ وہ حامل بطاقة سے
اس مبلغ کامطالبہ کرے ؛ کیوں کہ اس ادائیگی کے نتیجے میں
بینک کارڈہولڈرکادائن بنتاہے‘(اوردائن کوحق حاصل ہوتاہے کہ وہ مدیون
سے اپنے دین کامطالبہ کرے)جب کہ کارڈکے اجراء اور تاجرسے معاہدے پردستخط
کرتے وقت کسی طرح کے قرض لین دین کا وجود نہیں ہوتا“۔(۵۹)
۵-یہاں ایک اشکال یہ
ہے کہ مقرض یعنی قرض دینے والاکون ہے؟ قرض لینے
والاتومعلوم اورمتعین ہے،اوروہ کارڈہولڈرہے،قرض کے احکام میں یہ
بنیادی شرط ہے کہ قرض دینے والااہل تبرع میں سے ہو،وگرنہ
قرض دیناشرعاًدرست نہ ہوگا؛ کیوں کہ اہل تبرع میں سے نہ ہونے کی
وجہ سے اہلیت بھی نہ ہوگی،جب اہلیت نہیں ہوگی
تو قرض کیسے دے گا،یہرحال قرض دینے والامجہول ہے، یہ
معلوم نہیں کہ قرض دینے والے یہاں بورڈآف ڈائریکٹران ہیں،یاشخص
قانونی یاکوئی اور؟؟؟۔بینک کسی حال میں
بھی اس کی تعیین نہیں کرتے،عام طورسے تونفع لیتے
وقت بورڈآف ڈائریکٹران اورشرکاء سامنے آتے ہیں،اورنقصان کے وقت ایک
فرضی تصور ”شخصی قانونی“ کوشخص حقیقی باورکرواکے
آگے کردیاجاتاہے،اگرچہ دستاویزات میں پہلے والے معاملے میں
بھی شخص قانونی کاتذکرہ ہوتا ہے ، مگر در حقیقت نفع لینے
والے توبینک کے مالکان ہی ہوتے ہیں، اگرشخص قانونی کو
مقرض مان بھی لیاجائے تواس پرہونے پرتمام اعتراضات یہاں بھی
وارد ہوں گے۔
دوسری رائے(وکالہ)
”بطاقة غیرمغطاة“کی تکییف
کے سلسلے میں دوسری رائے وکالہ کی ہے،جن علماء نے اسے وکالت
قراردیاہے ان میں ڈاکٹروہبہ مصطفی زحیلی صاحب ہیں،وہ
کہتے ہیں:”یہ کارڈحوالہ کے قبیل سے ہے،آج بینکوں میں
پائے جانے والے حوالے پراجرت لی جاتی ہے، توممکن ہے کہ اسے ہم اس قبیل
سے مان لیں،یا اجرت پروکالت کے قبیل سے مانیں“۔(۶۰)
ڈاکٹر عبدالستار ابوغدہ صاحب کے مطابق کارڈکایہ نظام وکالت اور کفالت دونوں
کومتضمن ہے،جب کہ (مروجہ) اسلامی بنکوں کے حوالے سے یہ قرضہ حسنہ بھی
ہے،ان کا کہنا ہے:کارڈکے استعمال میں اصل یہ ہے کہ اس میں توکیل
اورکفالت پائی جاتی ہے،اوربعض دفعہ قرضہ حسنہ کی صورت ہوتی
ہے ان بینکوں میں جوصارف کااکاؤنٹ (بیلنس)سے براہ راست ادائیگی
کوشرط قرار نہیں دیتے؛ بلکہ کارڈجاری کنندہ اس کی طرف سے
اداکرتاہے پھراپناحق وصول کرتاہے“۔(۶۱)دوسری تکییف
(وکالہ )پرہونے والے اعتراضات”بطاقة غیرمغطاة“یعنی وہ کارڈجس کے
اجراء کے لیے بینک کے پاس بیلنس رکھوانا مشروط وضروری نہ
ہو،اس کی تکییف بطوروکالہ پرواردہونے والے اعتراضات درج ذیل
ہیں:۱-وکالت میں عقدکاتعلق طرفین یعنی وکیل
اورموٴکل کے درمیان ہوتا ہے ، جب کہ کارڈمیں یہ تعلق تین
اطرف پرمشتمل ہوتاہے،کارڈہولڈر،کارڈجاری کنندہ اورتاجر۔
۲-عقدوکالہ میں وکیل
کوموٴکل کی طرف سے دین کی ادائیگی پر مجبور
نہیں کیا جاسکتاہے،(۶۲) جب کہ کارڈکے معاملے میں وکیل
یعنی کارڈجاری کرنے والاکارڈہولڈریعنی موٴکل
کی طرف سے دین کی ادائیگی پرمجبورہوتاہے۔(۶۳)
۳-وکالت میں یہ ضروری
ہے کہ محل وکالہ یعنی جس چیزکے بارے میں وکیل بنایا
جارہا ہو، وہ عقدکے وقت موجودہو،جب کہ کارڈمیں محل وکالت یعنی دین
عقدکے وقت موجود نہیں ہوتاہے۔(۶۴)
۴- موٴکلجن چیزوں میں
خودتصرف کرسکتاہے،انہی میں وکیل بنا سکتا ہے،اگرموٴکل نے
وکیل کومطلق اپناقائم مقام بنایا،تویہ اس بات کامقتضی ہے
، وکیل کوبھی اس چیزکااختیارہو،جس کاموٴکل اختیاررکھتاہے،کارڈوالے
معاملے میں موٴکل یعنی کارڈ ہولڈر،تاجرکوخودادائیگی
نہیں کرسکتاہے۔
۵-وکالت میں مال وکیل
کے پاس امانت ہوتاہے،اگربغیرتعدی کے ہلاک وضائع ہوجائے تواس پرکوئی
ضمان نہیں،جب کہ کارڈہولڈرکامال اوررقم کارڈجاری کنندہ کے پاس ہرحال میں
مضمون ہوتے ہیں۔(۶۵)
۶-کارڈوالے معاملے پروکالت منطبق نہیں
ہوتی،اورنہ ہی وکیل کے اوپرلازم ہے کہ وہ موٴکل کی
طرف سے اپنے مال سے ادائیگی کرے،ورنہ یہ کفالت کی شکل اختیارکرلے
گا۔(۶۶)
۷-کارڈجاری کنندہ تاجرکے حقوق
کاضامن بھی ہوتاہے،ایک ہی شخص کوضامن اوروکیل بناناحنفیہ
کے ہاں درست نہیں،اس سے وکالت باطل ہوجاتی ہے۔ (۶۷)یہاں
یہ نہیں ہوسکتاکہ کفالت باطل ہوجائے ، اوروکالت باقی رہے؛اس لیے
کہ کفالت وکالت سے اقوی ہوتی ہے تووہی ناسخ بنے گی۔(۶۸)
لہٰذاوکالت باطل ہوجائے گی نہ کہ کفالت۔لہٰذامذکورہ
اعتراضات کی وجہ سے ”عقدبطاقة“کی فقہی تکییف وکالہ
سے کرنادرست نہیں؛کیوں کہ وکالت اپنے تمام ارکان وشروط کے ساتھ اس
معاملے پرمنطبق نہیں ہوتی ہے۔
تیسری رائے(حوالہ)
”بطاقة غیرمغطاة“کی فقہی
تکییف میں تیسری رائے یہ ہے کہ یہ
حوالہ ہے،معاصرعلماء میں سے ڈاکٹررفیق مصری،(۶۹)شیخ
عبداللہ بن منیع،(۷۰) اور ڈاکٹر وہبة الزحیلی(۷۱)
وغیرہ نے اس کو اختیار کیاہے۔تیسری تکییف
(حوالہ)پرہونے والے اعتراضات ”بطاقة غیرمغطاة“کی فقہی تکییف
”حوالہ“پردرج ذیل اعتراضات وارد ہوتے ہیں:۱-حوالہ کی تعریف
یہ ہے :دین کومحیل سے محال علیہ کے ذمہ کی طرف
منتقل ومحول کرنا(۷۲)،اس کاتقاضہ یہ ہے کہ محال علیہ محیل
کا مدیون ہو،جب کہ کا رڈ میں ایسا نہیں ہو تا، کیو
ں کہ کارڈ کے اجراء کے وقت، یا تاجر سے معاہدے کے وقت کسی کا کسی
پر کوئی دین نہیں ہو تا۔(۷۳)دین کے
ثبوت پر وہ معاملہ وکالت یا کفالت قرار دیا جائے گا۔ (۷۴)
شیخ ابراہیم الدبونے لکھا ہے کہ اس مسئلہ پر حوالہ کا مفہوم بھی
منطبق نہیں ہوتا؛ اس لیے کہ حوالہ تو محال علیہ کے ذمہ کسی
دین سابق کا تقاضا کر تا ہے اور اس میں محیل کی رضا کا پا
یا جانا ضروری ہے ،جب کہ یہاں ”بینک “ پر کو ئی دین
سابق نہیں پا یا جاتا ہے کہ جس کی وجہ سے اس مسئلہ کو حوالہ کے
قبیل سے سمجھا جائے ، اور ہمارے نزدیک اس مسئلہ میں محیل
کی رضا کا کو ئی تصور بھی نہیں پا یا جاتا ۔(۷۵)
۲۔حوالہ جب مکمل ہو جائے تو
وہ محیل کا دین سے بری ہو جانے کا تقاضا کر تا ہے ،چناں چہ
علامہ موصلی فر ماتے ہیں :یعنی جب حوالہ مکمل ہو جائے تو
محیل ( دین) سے بری ہوجا تا ہے(۷۶)؛ جب کہ کارڈ
والے معاملہ میں کارڈ ہولڈرصرف حوالہ کے مکمل ہو نے سے بری نہیں
ہو تا ۔
۳۔اگر یہ تسلیم
کر لیا جائے کہ یہاں دین کی ادئیگی کا ذمہ
کارڈ ہو لڈر سے کارڈ جاری کنندہ کی طرف منتقل ہو جا تا ہے ،تو پھر بھی
اس سے بھی مکمل طور سے حوالہ متحقق نہیں ہو تا؛کیو ں کہ کو ئی
بھی تاجر کارڈ ہو لڈر کو کو ئی شئے یا خدمت صرف اس لیے
فرا ہم کر تا ہے کہ اسے پہلے سے معلوم ہو تا ہے کہ بینک نے کارڈ ہو لڈر کی
طرف سے ادائیگی کی ذمہ داری قبو ل کی ہے، تو گو یا
یہ کفالہ کی طرح کوئی چیز لینا ہے (حقیقت میں
حوالہ نہیں )۔(۷۷)
چو تھی رائے (وکالہ مع کفالہ)
بطا قة غیر مغطاة کی فقہی
تکییف میں چو تھی رائے ” وکالہ مع الکفالہ “کی ہے ،
یہ رائے ڈاکٹر مصطفی الزرقا صاحب(۷۸)ڈاکٹر عبد الستار ابو
غدہ صاحب(۷۹) مفتی سید باقر ارشد صاحب بنگلور مو لانا
محمد شوکت ثناء قاسمی صاحب (حیدر آباد ہند) کی ہے۔(۸۰)
چوتھی تکییف پر ہونے والے اعتراضات وکالہ پر ہو نے والے
اعتراضات پہلے بیان ہو چکے ہیں ،یہاں وکالہ اور کفالہ دونوں کو
ایک ساتھ جمع کر نے کی صورت میں جو اعتراضات وارد ہو تے ہیں
ان کو بیان کر نا مقصود ہے ۔
۱۔جمع بین الوکالہ
والکفالہ صحیح نہیں ،فقہاء نے اس کی وجہ بیان کی
ہے؛چناں چہ کنز الدقائق کی شرح تبیین الحقائق میں علامہ زیلعی فر ماتے ہیں: اگر ایک شخص کا دوسرے پر دین ہو
اور اس کی ایک آدمی نے کفالت کرلی توطالبِ دین نے
کفیل کو وکیل بنایا اس دین پر قبضہ کر نے کا ،تو یہ
تو کیل درست نہ ہو گی ، اس لیے کہ وکیل تو وہ ہو تا ہے کہ
جو دوسرے کے لیے کام کر تا ہے جب کہ یہاں اگر اس وکالت کو درست قرار دیا
جائے تو پھر وکیل اپنے لیے کام کر نے والابن جائے گا ،اس طور سے کہ جس
دین کی اس نے کفالت کی تھی اب اسی پر قبضہ کر کے
اپنا ذمہ بری کر نے کی کوشش کر نے والا ہوگا، لہٰذا اس سے رکنِ
وکالت ختم ہو جائے گا تو کفیل کو وکیل بنانا بھی باطل ہو جائے
گا۔(۸۱)
۲۔ وکالت اورکفالت کے مفہوم میں
منا فات ہے ،کیو ں کہ وکیل تو امین ہو تا ہے ،جب کہ کفیل
تو ضامن ہو تا ہے ۔(۸۲) ان اعتراضات سے واضح ہوا کہ وکالت اور
کفالت دونوں ایک ساتھ کارڈ جاری کر نے کے عمل اور اس کے استعمال پر
مکمل طور سے منطبق نہیں ہو تے ،لہٰذا یہ تکییف بھی
درست نہیں۔(۸۳)
پانچویں رائے( کفالہ)
بطاقة غیر مغطاة کی فقہی
تکییف میں پانچویں رائے ”کفالہ“ کی ہے، یہ
رائے ڈاکٹر نزیہ حماد صاحب ،(۸۴) ڈاکٹر محمد عبد الحلیم
صاحب ،(۸۵)ڈاکٹر عبد اللہ سعدی صاحب ،شیخ علی محی
الدین القرة الداغی صاحب ،ڈاکٹر محمد القری صاحب ،(۸۶)
مولانا خورشید احمد صاحب اعظمی صاحب ، مفتی محمد عبد الرحیم
قاسمی اور مولانا خورشید انور اعظمی صاحب وغیرہ کا ہے۔(۸۷)
چوتھی تکییف کفالہ پر ہو نے والے اعترضات: اس تکییف
پر مختلف اعتراضات کیے گئے ہیں :۱-کفالت (ضمان) چو ں کہ شریعت
اسلامی کی نگاہ میں ان اعمال ِ بر میں سے ہے جن کے ذریعے
بندہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے ،لہٰذا اس پر کسی
طرح کی اجرت لینا درست نہیں، اجرت چاہے کم ہو یا زیادہ
،کسی بھی نام و عنوان سے لی جائے درست نہیں ،چناں چہ
علامہ صاوی نے ایک حدیث نقل کی ہے : ”ثلاثة لا
تکون إلا للہ الجعل، والضمان، والجاہ “․(۸۸) یعنی
تین چیزیں صرف اللہ کے لیے ہو تی ہیں :
انعام، ضمان اور مرتبہ۔علامہ ابو بکر بن منذر رحمة اللہ علیہ فر ماتے
ہیں : ”أجمع من کل تحفظ عنہ من أھل العلم علی
أن الحمالة بجعل یأخذہ الحمیل لاتحل ولا تجوز “․(۸۹) یعنی
تمام اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ تاوان یا خون بہا کی ادائیگی
پر ضامن کی طرف سے لی جانے والی کو ئی بھی اجرت
جائز و حلال نہیں۔ کفالت (ضمان ) کے اس اصل شرعی کی روشنی
میں کریڈٹ کارڈ کا معاملہ جو کفالت کو متضمن ہے اس میں ضامن (یعنی
بینک )کے لیے کسی طرح کی اجرت لینا جائز نہیں
،چاہے کارڈ ہولڈر سے ہو یا تاجر سے یا ان دو نو ں کے علاوہ کسی
تیسرے فر د سے ،بہر حال اجرت لینا جائز نہیں (جب کہ عقد بطاقة میں
صورت حال یہ ہے کہ بینک کارڈ ہولڈر اور تاجر دونوں سے اجرت لیتا
ہے ۔(۹۰)
۲۔ فقہائے شافعیہ کفالت
کے جواز کے لیے دین مضمون کا عقد کے وقت یقینی طور
سے پائے جانے کو شرط قرار دیتے ہیں؛کیوں کہ یہ ایک
وثیقہ (قرض کا اقرار ) ہے تو شہادت (گواہی) کی طرح ثبوت حق سے
متقدم نہیں ہو سکتی ۔(۹۱) چوں کہ عقد بطاقة میں
بھی ثبوت دین سے قبل ہی عقد ہو جا تا ہے، اس لیے وہ درست
نہیں ۔
۳۔ کفالہ کی تکییف
پر ہو نے والے اعتراضات میں ایک بنیادی اعتراض یہ
بھی ہے کہ کفالہ میں تو اصیل اور کفیل دو نو ں سے مطالبہ
کر نا جائز ہے، جب کہ کریڈٹ کارڈ والے معاملے میں تاجر صرف کفیل
یعنی بینک سے مطالبہ کر سکتا ہے ،کارڈ ہولڈر سے مطالبہ کر نے کا
حق نہیں ،یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بینک ادائیگی
کر تا ہے اور کبھی ادائیگی سے پیچھے نہیں ہٹتا اور
نہ ہی انکار کرتا ہے، لیکن کفالت کی صورت میں شریعت
نے تاجر کو اصیل سے مطالبہ کا جو حق دیا ہے اس کو ختم کر نے کا کسی
کو اختیار نہیں ،چوں کہ بینک کے طے شدہ قواعد و ضوابط کے تحت
تاجر کارڈ ہولڈر یعنی اصیل سے مطالبہ نہیں کر سکتا ،کیو
نکہ وہ تو کارڈ دکھا کر اپنے ذمہ سے بری ہو گیا ہے ،تو اس صورتحال میں
عقد بطاقة پر کفالہ کی تکییف صادق نہیں آتی ۔غرض
اگر برأت اصیل کی شرط کو درست مان لیا جائے جیساکہ حنفیہ
اور مالکیہ کے یہاں ہے تو پھر یہ عقد بطاقة کفالہ سے نکل کر
حوالہ میں داخل ہو جائے گا اور اس پر وہ تمام اعتراضات وارد ہو ں گے جو
حوالہ پر وارد ہو تے ہیں ۔
۴۔ ڈاکٹر ابو سلیمان
عبد الوہاب صاحب عقد بطاقة کی تکییف کفالہ سے کر نے پر ”مناقشہ“
کرتے ہو ئے لکھتے ہیں کہ عقد بطاقة کی تکییف میں
کفالہ یا ضمان کا قول اس حد تک تو درست ہے کہ تاجر کا حق دین جو کارڈ
ہو لڈر کے ذمہ ہو تا ہے ، اس کاذمہ قبول کر تا ہے اور کفالہ اور ضمان کی طرح
اس کے بھی تین اطراف ہو تے ہیں؛لیکن یہ کہنا کہ کریڈٹ
کارڈ کے نظام کے عقود کے سلسلے میں صرف کفالہ ہی تکییف پائی
جاتی ہے تو یہ مسلّم نہیں؛کیو ں کہ اس صورت کا قائل ایک
جہت سے کارڈ جاری کنندہ اور کارڈ ہولڈر کے در میان ہو نے والے عقد جب
کہ دوسری جانب سے کارڈ ہولڈر اور تاجر کے درمیان پائے جانے والے عقد
سے بھی غافل ہے ۔(۹۲)
۵۔فقہائے کرام کی
عبارتوں سے یہ بات معلوم ہو تی ہے کہ کفیل کا انسان حقیقی
ہو نے کے ساتھ ساتھ مکلف ،صاحب تبر ع اور غیر سفیہ ہو نابھی
ضروری ہے ،جب کہ عقد بطاقة میں کفیل کا انسان حقیقی
نہ ہو نا واضح ہے ؛کیوں کہ ماہرین معاشیات کے نزدیک بینک
یا کارڈ جاری کر نے والے ادارے شخص قانونی ( لیگل پرسن )
کی حیثیت سے یہ سب امور انجام دیتے ہیں ،شخصِ
قانونی کا غیر مکلف ہو نا بھی اظہر من الشمس ہے اور جب وہ حقیقی
انسان اور مکلف نہیں تو صاحبِ تبرع کیسے بنے گا ،غرض شخص قانونی
کی بنیاد پر انجام دئیے جانے والے معاملات شرعی نقطہ نگاہ
سے کس حد تک کہ گنجائش رکھتے ہیں ،مذکورہ بالا امور کی روشنی میں
اس کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے ،لہذا اگر عقد بطاقة میں کفالہ کی
تکییف مان بھی لی جائے تو وہ اس اعتراض سے خالی نہیں
۔
۶۔مفتی محمد تقی
عثمانی صاحب مد ظلہ پانچویں تکییف کفالہ کے بارے میں
”المعاییر الشرعیة “ کی تشریح میں فر ماتے ہیں
کہ کفالہ کی تحقق میں تھوڑا سا اشکال ہے مجھے ، وہ یہ ہے کہ
کفالہ میں مکفول لہ متعین ہو نا چاہیے اور یہاں مکفول لہ
متعین نہیں؛کیوں کہ جب کارڈ جاری کیا تو پتہ نہیں
کہ یہ شخص کارڈ لے کر اس کو کہاں جا کر استعمال کرے گا ؟ کس بائع سے خریدے
گا ؟ کس سے نہیں خریدے گا ؟یہ پتہ نہیں ،تو کفیل کے
لیے ایسی کفالت عامہ ہے جس کا مکفول لہ متعین نہیں
تو ایک خرابی تو یہ ہے کفالت ماننے میں ،دوسری خرابی
یہ ہے کہ کفالہ کہتے ہیں ”ضم الذمة إلی ذمة “ کا مطلب یہ ہے کہ اس کفالت کی
وجہ سے مدیونِ اصل بری نہیں ہو تا بلکہ دائن کو یہ حق
حاصل ہو تا ہے چاہے اصیل سے مطالبہ کرے یا کفیل سے ،تو جو اصیل
ہے وہ کفالت کے بعد بری نہیں ہو تا اور اب اس صورتحال (کریڈٹ
کارڈ) کا جو معاملہ ہو تا ہے ، اس میں یہ بات طے شدہ ہے کہ جب خریدار
نے کریڈٹ کارڈ دکھا کر دستخط کر دئیے تو وہ بری ہو گیا ،
اب بائع اس سے مطالبہ کسی صورت میں نہیں کر سکتا ،تو اس واسطے
کفالت کے تحقق میں یہ اشکال ہے کہ مکفول لہ غیر متعین ہو
،اصیل کا بری ہو جانا ان دو وجہوں سے اس کو کفالت نہیں کہہ سکتے
۔ (۹۳)
کریڈٹ کارڈ کے عدم جواز پر علماء کی آراء
اس بارے میں بھی اپنی
طرف سے کوئی تحقیق پیش کرنے کے بجائے میں انھیں
علماء حضرات کی آراء اور تحقیق کوپیش کرنا زیادہ مناسب
سمجھتا ہوں جنہوں نے اس کے عدم جواز پر مفصل کلام کیا ہے۔ہمارے نزدیک
ان علماء کی رائے زیادہ صائب ہے جو کریڈٹ کے عدم جواز کے قائل ہیں،دو
وجوہات سے :۱-ایک تو صلب عقد میں سود کی شرط کے پیشِ
نظر،۲- دوسرے تعامل کی وجہ سے کہ کارڈ لینے کے بعد اکثر لوگ سود
میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹر وہبہ زحیلی نے لکھا ہے
کہ جس معاہدہ پرکارڈ ہولڈراور بینک دستخط کرتے ہیں وہ فاسد ہے کیوں
کہ اس میں فاسد شرط پائی جاتی ہے،وہ یہ کہ وقت متعینہ
پر رقم کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں اضافی
رقم دینی ہوگی اور جس نے فاسد معاہدہ طے کیا وہ صرف طے
کرنے ہی سے گناہ گار ہو جاتا ہے،چاہے حامل کارڈ ”سود“ دے یا نہ دے؛اس
لیے کہ جمہور کے نزدیک مالی لین دین میں فاسد
شرط اس کو فاسد کر دیتی ہے۔اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے حنابلہ کے
مذہب کا ذکر بھی کیا ہے کہ ان کے نزدیک شرط فاسد سے عقد فاسد نہیں
ہوتا،عقد صحیح ہوتا اور شرط خود فاسد ہو جاتی ہے،جب کہ مروجہ اسلامی
بینکوں کے سلسلہ میں بعض حضرات نے حنابلہ کے مسلک کو پیش نظر
رکھ کر جواز کے قول کو اختیار کیا ہے اور مسلم شریف میں
وارد:” من اشترط شرطاً لیس في کتاب اللہ
فھوباطل و إن کان مائة شرط“․ اور صحیحین میں وارد حضرت بریرہ
رضی اللہ عنھاکے واقعہ سے استدلال بھی کیا ہے؛لیکن چوں کہ
یہ سب معاملات سودی ہیں،یا کم از کم شبہ ربا موجود ہے ؛اس
لیے جمہور ہی کا قول احوط اور اسلم ہے۔پھر ظاہر سی بات ہے
کہ بینک کا مقصد صرف اور صرف نفع کمانا ہے،لوگوں کو خاص طور سے مسلمانوں کو
سہولیات فراہم کرنا اس کا مقصد اوّلین نہیں؛چناں چہ نفع کمانے
کے لیے بینک نے طرح طرح کے حیلے ایجاد کر رکھے ہیں
اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔آمین۔ڈاکٹر
زحیلی صاحب کریڈٹ کارڈ کے شرعی حکم کے تحت رقم طراز ہیں
کہ اس کارڈ کے ذریعہ لین دین حرام ہے؛اس لیے کہ یہ
سودی قرضہ کے معاہدہ پر مشتمل ہوتا ہے، اس کا حامل اسے قسط وار سودی
فائدے کے ساتھ ادا کرتا ہے۔(۹۴)
مولاناخالد سیف اللہ رحمانی
صاحب کریڈٹ کارڈ وغیرہ میں جو مقررہ مدت کے بعد زائد سودی
رقم وصول کی جاتی ہے اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حقیقت
یہ ہے کہ پندرہ روز کی مدت(بعض جگہ ایک مہینہ یا
چالیس دن کی مدت)کے بعد ادائیگی کی صورت میں
جو زائد رقم ادا کی جاتی ہے وہ سود ہے،سود خور کی نفسیات یہی
رہی ہے کہ پہلے قرض دو تاکہ لوگ ہنسی خوشی نعمت غیر
مترقبہ سمجھ کر اسے لے لیں اور جب وقت پر ادانہ کر سکے تو زائد ادائیگی
کی شرط پر مہلت دے دو، زمانہ جاہلیت میں ربا کا یہی
طریقہٴ کار مروج تھا جسے ربانسیئہ سے تعبیر کیا گیاہے۔مزید
لکھتے ہیں کہ اس لیے حقیقت یہ ہے کہ قرض پر لی جانے
والی زائد رقم سود میں داخل ہے ،سود کا لینا بھی حرام ہے
اور دینا بھی؛ اس لیے کریڈٹ کارڈ کا حاصل کرنا اصولی
طور پر جائز نہیں ہے اور اس سے جو جائز سہولتیں متعلق ہیں وہ ڈیبٹ
کارڈ سے حاصل ہو جاتی ہیں؛ اس لیے عام حالت میں اس کارڈ
کے حصول کو ضرورت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے ،یہ خیال ہو
سکتا ہے کہ اگر پندرہ دنوں کے اندر ہی رقم ادا کردی جائے جس پر کوئی
سود نہیں لیا جاتاتو اس لحاظ سے اسے جائز ہونا چائیے؛لیکن
یہ بات درست نظر نہیں آتی؛کیوں کسی معاملے کے
جائزہونے اور نہ ہونے کا مدار صرف نتیجہ پر نہیں ہوتا؛ بلکہ معاملہ طے
پانے کی کیفیت پر ہوتا ہے،یہاں صورتِ حال یہ ہے کہ
کریڈٹ کارڈکا حامل اور بینک آپس میں معاہدہ کرتے ہیں کہ ایک
خاص مدت کے بعد قرض واپس کرتے ہوئے سود بھی ادا کرنا ہوگا ،گویامعاملہ
میں سود کا لین دین شروع سے شامل ہے؛ اس لیے یہ
معاملہ اپنے آغاز ہی سے نا درست قرار پائے گا۔مولانارحمانی صاحب
نے مزید لکھا ہے کہ آج کل کاروبار کے دائرے کے وسیع ہو جانے کی
وجہ سے بینک کے مختلف کارڈکا استعمال بڑھتا جارہا ہے ،مسلمانوں کو چاہیے
کہ وہ اس سلسلہ میں شرعی احکام و حدود کو ملحوظ رکھیں۔(۹۵)
مفتی اعظم تیونس شیخ
محمد مختار سلامی صاحب کریڈٹ کارڈ کی حرمت بیان کرتے ہوئے
لکھتے ہیں کہ اس قسم کو اکثر معاصر فقہاء نے حرام قرار دیا ہے؛لیکن
بعض فقہاء نے اس صورت کو حرمت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے کہ جب
صاحب کارڈ یہ التزام کرے کہ وہ مطلوبہ رقم یکمشت اور وقت پر جمع کرے
گا؛کیوں کہ وہ اس عزم سے شرط کو ساقط کردینے والاہوگا اور شرط ساقط
ہونے پر معاملہ درست ہوتا ہے؛اس لیے جس بنیاد پر یہ صورت حرام
قرار پاتی ہے وہ ہے تاخیر سے رقم کی ادائیگی میں
سود کا عائد کیا جانا جو یہاں متحقق نہیں ہوتی؛لیکن
میری رائے اس کے بر عکس ہے، میرے خیال میں چوں کہ
اس صورت میں کارڈ ہولڈر کو عقد کے وقت ہی معلوم ہوتا ہے کہ تاخیر
کی صورت میں اس کو اضافی سود ادا کرنا ہوگا؛کیوں کہ یہاں
ثمن میں سودکی شرط ہے ؛اس لیے یہ حرام ہے،اسی طرح
صاحب کارڈ کے التزام کا معاملہ غیر معلوم ہے؛ کیوں کہ مستقبل میں
وہ اسے پورا کرپائے یا نہ کرپائے،یہ معلوم نہیں؛اس لیے کہ
مطالبہ کے وقت فی الفور رقم کی ادائیگی اسی صورت میں
ہوسکتی ہے جب کہ اس کے پاس اتنی رقم مہیا ہو اور وہ حتمی
صورت میں اتنی رقم کا مالک نہیں ہے؛ کیوں کہ رقم ابھی
غیر موجود ہے۔(۹۶)
ان حضرات کے علاوہ پروفیسر عبد المجید
سوسوہ ،پروفیسر الصدیق محمد الامین الضریر،فقہ اکیڈمی
ہند اور اس کے اراکین میں سے دارالعلوم ندوة العلماء کے استاذ مولانا
محمد اعظم ندوی، المعہدالإسلامی حیدر آباد ہندکے شعبہ علمی
کے رفیق مفتی سید اسرار الحق سبیلی،جامعہ مظہر
العلوم بنارس یوپی کے استاذ مولانا خورشید انور اعظمی،دارالعلوم
ندوة العلماء کے استاذتفسیر و فقہ مولانا برہان الدین سنبھلی
،مولانا زبیر احمد قاسمی ،مرکزی دار القضاء امارت شرعیہ
پھلواری پٹنہ کے قاضی مولانا عبد الجلیل قاسمی،مولانا عبد
اللطیف پالنپوری(۹۷) اور پاکستان کے علماء میں مفتی
عبدالواحد صاحب(لاہور) وغیرہ نے مذکورہ معاملہ کومقرر مدت پررقم ادا نہ کرنے
کی صورت میں اضافہ کی شرط فاسد کی وجہ سے عقد کو فاسد ،جب
کہ صلب عقد میں سود کے مشروط ہونے اور کریڈٹ کارڈ حاصل کرنے والوں کی
اکثریت کے سود میں مبتلاء ہونے کے تعامل کی وجہ سے کریڈٹ
کارڈ کو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔
$ $ $
حواشی:
(۴۰)بطاقات الائتمان البنکیة في الفقہ
الإسلامي،ص:۸۱․
(۴۱) بطاقة
الائتمان للضریر،ص:۱۱،مجلة مجمع الفقہ الإسلامي :۱۲/۱۴۳۱․
(۴۲)بطاقات الائمان للقري،مجلة المجع: ۷
/ ۳۰۶ ، و بطاقات الائتمان البنکیة،ص:۸۰․
(۴۳)بینک سے جاری ہونے والے مختلف
کارڈکے شرعی احکام،ص:۱۵۱،۱۵۳۔
(۴۴)بطاقات الائتمان للزحیلي ،ص: ۷
، بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈکے شرعی احکام،ص: ۱۵۱
، ۱۵۳۔
(۴۵)بینک
سے جاری ہونے والے مختلف کارڈکے شرعی احکام،ص:۲۵،۲۶۲،
۴ ۲ ، ۱۴۰،۸۶، ۱۸۰،۱۸۱،۲۵۱۔
(۴۶)انعام الباری ،کتاب الحوالات : ۶
/ ۴۹۱ - ۴۹۵۔
(۴۷)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي،ع ۱۵:۳/۷۷․
(۴۸)بینک سے جاری ہونے والے مختلف
کارڈکے شرعی احکام،ص:۶۷۔
(۴۹)حوالہ سابق،ص:۲۵،۲۴۵۔اس
بارے میں مزید اقوال اور دلائل راقم کی اس موضوع پرعنقریب
طبع ہونے والی کتاب میں ملاحظہ فرمائیں۔
(۵۰)بطاقات الائتمان،ص:۵۹․
(۵۱) البطاقات
البنکیة،ص:۱۳۶․
(۵۲)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي ، ع ۱۲،
:۳/۵۶۷․
(۵۳)قلعة جي،المعاملات المالیة المعاصرة:۱۱۷․
(۵۴)شرح منتہی الإرادات:۲/۲۲۴․
(۵۵)الدرالمختارمع حاشیة ابن عابدین
، کتاب البیوع،فصل في القرض:۷/۴۰۶،دارالمعرفة․
(۵۶)الدکتورنزیہ حماد،عقدالقرض في الشریعة
الإسلامیة،الفصل الثانی:۴۱-۴۵،دارالقلم،دمشق․
(۵۷)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي، ع:۷:۱/۶۵۱․
(۵۸)المرجع السابق:۱/۶۵۱․
(۵۹)الجوانب الشرعیة والمصرفیة،ص:۵۶․
(۶۰)مجلة مجمع الفقہ الإسلامی:۱/۶۶۸․
(۶۱) المرجع
السابق:۱/۶۵۷․
(۶۲)حاشیة ابن عابدین ،کتاب
الحوالة : ۱ ۱ / ۴۳۲ دارالفکر․
(۶۳)المعاملات المالیة المعاصرة:۱۱۶․
(۶۴)المرجع السابق․
(۶۵)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي ، ع ۷ ، ۱
/ ۶۶۴․
(۶۶)بطاقات الائتمان البنیکة،ص:۹۰․
(۶۷)الزیلعي، فخرالدین عثمان بن
علي، تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق، کتاب الوکالة: ۵/۲۹۷،
دارالکتب العلمیة․
(۶۸)المرجع السابق،ص:۲۹۸،البطاقات
البنکیة ،ص : ۱۹۹، ۲۰۰․
(۶۹) المصري،رفیق
یونس،مجلة مجمع الفقہ الإسلامي، الدورة :۷، ع ۷، : ۱/۶۸۲
، ۱۹۹۲م․
(۷۰)المرجع
السابق : ۱ / ۶۶۸․
(۷۱) المرجع
السابق،ع ۱۲،:۳/۶۵۸․
(۷۲)الاختیارلتعلیل المختار:۲/۳․
(۷۳)محمد عبد الحلیم : الجوانب الشرعیة
والمصرفیة ،ص :۵۴․
(۷۴)الدسوقي:حاشیة الدسوقي علی
الشرح الکبیر :۳/ ۳۲۵․
(۷۵)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي ،ع:۱۲،:
۳/ ۵․
(۷۶)الاختیار :۳/۵․
(۷۷)بطاقات الائتمان البنکیة في الفقہ
الإسلامي ،ص:۹۱،۹۲․مزید تفصیل کے لیے
راقم کی اس موضوع پرعنقریب طبع ہونے والی کتاب ملاحظہ فرمائیں۔
(۸۷)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي ،عدد۷:۱/
۶۷۲․
(۷۹)المرجع السابق ،عدد۸ :۲/۶۴۴․
(۸۰)بینک سے جاری ہو نے والے مختلف
کارڈ کے احکام ،ص: ۱۵۹ ،۱۶۰، ۲۴۵۔
(۸۱) تبیین
الحقائق :۴/ ۲۸۱ دار المعرفة بیروت․
(۸۲)مجلة مجمع الفقہ الإسلامي ،عدد۸:۲/
۶۶۴․
(۸۳)بطاقات الائمتان البنکیة في الفقہ
الإسلامي ،ص: ۹۳․
(۸۴)حماد نزیہ، قضایا فقھیة
معاصرة،ص:۱۴۶․
(۸۵)عمر، محمد عبد الحلیم : الجوانب
الشرعیة ،ص: ۵۷․
(۸۶)مجلة ،مجمع الفقہ الإسلامي ،عدد ۱۲
،۳/ ۶۶۰،۶۲۸․
(۸۷)بینک سے جاری ہو نے والے مختلف
کارڈ کے شرعی احکام ،ص: ۱۹۳،۲۱۸، ۲۳۷۔
(۸۸) حاشیةالصاوي علی الشرح الصغیر
علی أقرب المسالک مع الشرح الصغیر:۳/ ۴۴۲․
(۸۹)الاشراف علی مذاھب أھل العلم : ۱/
۱۲۰ ،وزارة الاوقاف والشوٴن الإسلامیة ، قطر
،الطبعة الثانیة :۱۴۱۴ ھ ۔۱۹۹۴م․
(۹۰) البطاقات
البنکیة ،ص؛ ۱۸۶․
(۹۱) تحفة
المحتاج :۵/ ۲۴۶،مغني المحتاج :۲/ ۱۰․
(۹۲) البطاقات
البنکیة ،ص: ۲۱۰․
(۹۳)المعاییر الشرعیة ،املائی
افادات ۱۴۲۰ ھ ، ص:۱۱۷․
(۹۴)بینک سے جاری ہونے والے مختلف
کارڈ کے شرعی احکام،ص:۷۰،۷۲۔
(۹۵)حوالہ سابق،ص:۸۸،۸۹۔۷۷۷
(۹۶) حوالہ
سابق،ص:۱۳۲۔
(۹۷)بینک سے جاری ہونے والے مختلف
کارڈ کے شرعی احکام،ص:۹۲، ۱۰۷،۱۰۸،۱۸۳،۱۸۵،۲۳۰،۲۳۷،۲۵۹،۲۶۲۔
$ $ $
------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد:
99 ، جمادی الثانیہ 1436 ہجری مطابق اپریل 2015ء